2.3.6 طبقہ بندی اور اسلامی اخلاقیات
کلاسیکی اسلامی مفکر، مثلا ابو حامد الغزالی اور نصیرالدین طوسی ، کے آج کی اسلامی اخلاقی روایت پر گہرے اثرات ہیں۔ اس کے باوجود، جب بھی ہم اخلاقیات کے حوالے سے ان کی خدمات کا سراغ لگا رہے ہوتے ہیں توہمارے سامنے یہ سوالات بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ وہ کس کے لئے لکھ رہے تھے، اور جس معاشرے کا انہوں نے تصور کیا تھا اسے کس کی ماتحتی کی ضرورت تھی۔
درج ذیل مضمون میں، ولیمز کالج میں شعبہ مذہب کی پروفیسر سعدیہ یعقوب، کلاسیکی اسلامی اخلاقی مباحث میں اہم متون میں پائی جانے والی درجہ بندی اور عدم مساوات پر غور کرتی ہیں۔ زہرا ایوبی کی کتاب، "جینڈرڈ موریلٹی” کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر یعقوب نشاندہی کرتی ہیں کہ صنف سے لے کر غلامی، عمر، معاشرتی حیثیت اور مذہب کے ارد گرد موجود درجہ بندی یہ طے کرتی ہے کہ روحانی تطہیر کا واضح راستہ کس کے پاس ہے۔
پڑھیں: طبقہ بندی، باہمی انحصار، اور اسلامی اخلاقیات//کنٹینڈنگ ماڈرنٹیز
رہنمائی کے سوالات:
۱۔کون سے ڈھانچے اور توقعات مضمون میں مذکور خواتین کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ "عبادت اور علم کے حصول سے محروم ہو رہی ہیں”؟
۲۔ایوبی کلاسیکی اخلاقی مباحث میں کون سے تضاد کی نشان دہی کرتی ہیں؟
۳۔اگر یہ کہا جائے کہ صرف مرد اشرافیہ طبقہ ہی اخلاقی تزکیہ حاصل کر سکتا ہے اور غیر اشرافیہ طبقہ نہیں، تو اسلام پر اس دعوی کے کیا معنی مرتب ہوں گے؟
۴۔باہمی انحصار اور مساوات پر مبنی اخلاقیات ان خواتین کی زندگیوں کو کیسے بدل سکتی ہیں جو محسوس کرتی ہیں کہ انہیں الگ تھلگ کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے دین سے "محروم” ہورہی ہیں؟
۵۔ہم موجودہ لوگوں کے وقار کو مد نظر رکھتے ہوئے، ماضی کے علماء سے کیسے سیکھ سکتے ہیں؟
تھمب نیل: " تومانبا خان، اس کی بیوی اور اس کے نو بیٹے "، ایک چنگیزنامہ سے حاصل شدہ تصویر(چنگیز خان کی کتاب) ، ca. 1596. میٹ ، پبلک ڈومین۔