اس حصے میں تحریک حقوق نسواں کی تاریخ اور فلسفے کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جس نے بہت ساری جگہوں پر خواتین کی سیاسی شرکت اور ان کے لئے مواقع کو جہاں ایک طرف بڑھاوا دیا، تو وہیں دوسری طرف یہ تحریک بعض جگہوں پر نوآبادیاتی تشدد میں بھی ملوژ رہی۔ اس کے علاوہ اس حصے میں ان اسلامی صنفی مساوات کی خدمات کا تعار ف بھی پیش کیا جائے گا، جو بعض اوقات تحریک حقوق نسواں سے ملتا جلتا اور اس سے اخذ و استفادہ کرتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن یہ کئی لحاظ سے مختلف بھی ہے۔

قاہرہ میں اندرون شہر عید کے دوران خواتین پر بڑے پیمانے پر جنسی زیادتیوں کے خلاف سماجی کارکن مصری پریس سنڈیکیٹ کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے۔ فوٹو کریڈٹ: حسام الحمولوی ، 9 نومبر 2006۔ سی سی کے ذریعہ 2.0۔

جسے آج تحریک نسواں کے نام سے ہم جانتے ہیں ، یہ تحریک ۱۷ ویں اور ۱۸ ویں صدی میں پورے یورپ میں پھیل گئی تھی، اس نے اپنی بنیاد روشن خیالی کے زمانے کے ان نظریات جیسے، آزادی، عقلیت پسندی، اور معاشرتی معاہدات پر رکھی تھی جن میں سے عورتوں (اور بہت سارے مردوں) کو بے بنیاد طور پر باہر رکھا گیا تھا۔ در حقیقت، اس عرصے میں استعمار نے یورپی پدرشاہی نظام کو غیر یورپی علاقوں میں برآمد کیا اور اسے تقویت بخشی۔ کئی سالوں کے دوران تحریک حقوق نسواں میں سیاسی حقوق میں مساوات کی مانگوں کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی زندگی میں مساوات کی مانگیں بھی شامل کر لی گئیں۔ غیر سفید اور غیر مغربی خواتین نے بھی اپنی آوازیں بلند کرنا شروع کردیں، اور ان طریقوں کی نشاندہی بھی کی جن میں تحریک حقوق نسواں کی غالب اقسام کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی تاکہ نسل پرستی اور استشراق جیسے ظلم و ستم کا اعادہ نہ ہو سکے۔

تحریک حقوق نسواں کے فلسفے نے ایسے علمی حلقوں کو فروغ دیا جن کی بنیاد دنیا کو سمجھنے کے نئے طریقوں پر تھی، موضوعی اور حقیقی معنوں میں تحقیق کے اصول قائم کئے جو جنس اور صنف کو محض مطالعہ کی ایک جہت سمجھنے سے بہت بڑھ کر تھے۔ غیر جانبداری کے امکان پر سوال اٹھاتے ہوئے، یہ اصول اس بات کو بنیاد بناتے ہیں کہ جذباتی اور جسمانی تجربہ علم کی ایک قسم ہے، کیوں کہ ہر ایک شحص کسی دوسرے پر منحصر یا اس سے وابستہ ہے، اور یہ بھی دلیل دی گئی کہ دنیا میں ہمارا مقام اور ہماری شناخت ہمارے شعور و ادراک اور طرز عمل کو ایک مستقل قالب فراہم کرتا ہے۔

دنیا بھر میں غیر یورپی برادریوں کے ممبروں نے جنسی بنیاد پر قائم عدم مساوات سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی کام کیا ہے۔ مسلم خواتین اور مردوں نے ، بعض اوقات "فیمینسٹ” کے لیبل کو مسترد کرتے ہوئے، فقہی تعبیرات کی حکمت اور عصری معقولیت کا جائزہ لینے کے لئےبڑے پیمانے پر اسلامی نصوص اور قدیم علمی افکار کی تحقیق میں خدمات انجام دی ہیں۔ اس بات کے پیش نظر اس کام کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان قدیم تعبیرات کو اکثر ریاستی قوانین کا حصہ بنا لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مردوں کو خواتین پر اختیار حاصل ہوتا ہے، خواتین کو غیر مساوی قانونی امداد حاصل ہوتی ہے، اور خواتین کی سرگرمیوں کو بعض شعبوں میں روک دیا جاتا ہے۔ عالمی تنظیم، مساواة، جو خواتین کے زیر قیادت مسلمان خاندانوں میں مساوات اور انصاف کے لئے کام کرتی ہے، اس کے ایک پانچ سالہ تحقیقی پروجیکٹ کے نتائج کو ایک کتاب میں جمع کیا گیا ہے، اس کے مصنفین لکھتے ہیں :

بہت سے مسلم خاندانی ضابطوں کے مطابق ، مرد ایک طرفہ طور پر اپنی بیویوں کی سرزنش کر سکتے ہیں، چار شادیاں کر سکتے ہیں، اپنی بیوی کی اطاعت کا قانونی دعوی کر سکتے ہیں ( یعنی بعض اوقات ازدواجی گھر میں قید کرنا اور شوہروں کے ساتھ جنسی تعلقات کے لئے رضامندی حاصل کرنا) اور بچوں کے واحد سرپرست ہوتے ہیں۔ خواتین کا طلاق حاصل کرنے کا حق محدود ہوتا ہے اور بچوں کی سرپرستی اکثر انہیں نہیں دی جاتی ہے، اور اپنی بیویوں کی دیکھ بھال کرنے کا ان کا دعوی اکثر بیویوں کی طرف سے اپنے شوہروں کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ (میر حسینی و دیگر، ۲۰۱۵، صفحہ ۳ سے ۴)

مسلم صنفی مساوات کے حامی اسکالرز، جن کی حیثیت داخلی طور پر تکثیری ہے، اپنے کام کے لئے مختلف طریق کار سے استفادہ کرتے ہیں، ان میں سے بعض افراد صنفی کردار اور انصاف کے متعلق ان خدائی تصورات کو متعین کرنے کے لئے جو نصوص کی تشریح اور مذہبی معمولات کا تعین کرتے ہیں، اجتہاد کا سہارا لیتے ہیں۔ جبکہ دیگر افراد تحریک حقوق نسواں کے تحقیقی اصول سے استفادہ کرتے ہوئے مسلم تاریخ اور عصری حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ تمام طریق کار ان مختلف لوگوں کےاہم سوالات کی نہ صرف نشان دہی کرتے ہیں بلکہ ان کے جوابات بھی تجویز کرتے ہیں جن کی بازگشت سعدیہ یعقوب کے مضمون "درجہ بندی اور اسلامی اخلاقیات” میں موجود اس سوال میں سنائی دیتی ہے: "کیا میں بھی مساوی تکریم، مساوی روحانی تطہیر تک رسائی کا حق رکھتی ہوں؟”

ذیل میں فراہم کردہ مواد طلباء کو تحریک حقوق نسواں کی تاریخ اور اس کے تعلیمی طریق کار کے مطالعے میں رہنمائی کرے گا، ساتھ ہی ساتھ ان طریقوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے گا جن میں تحریک حقوق نسواں کو اخراج اور تشدد کے عمل کو جائز ٹھرانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ طلبہ کو تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ جز 4.4.2 کے لئے مہیا کردہ مواد سےفیمنسٹ فن تعلیم کے لئے خصوصی طور پر نوٹ تیار کریں کیوں کہ اس ماڈیول کے اس حصہ میں بار بار اس کا حوالہ دیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ ماڈیول مسلم صنفی مساوات کے کام اور اس کی اندرونی بحثوں کا جائزہ پیش کرے گا، اور ان طریقوں کی ایک مثال پیش کرے گا جس سے یہ واضح ہوگا کہ کس طرح سے صنفی مساوات اور فیمنزم کے طرز ہائے فکر نصوص اور تخلیق کو سمجھنے کے اضافی ، اگرچہ بہت اہم، طریقوں سے ہمیں روشناس کرا سکتے ہیں۔

کلیدی اصطلاحات:

فیمنزم
سوشل لوکیشن
محل وقوع
مجسم (ایمبوڈیڈ)
جنسی امتیاز کی مختلف صورتوں کا اثر انداز ہونا (انٹر سیکشنالٹی)
ظلم کی مختلف صورتیں

پڑھنے کے لیے مواد