2.2.3 عربی مترجمین

ایتھنز کا بازار از ایڈورڈ ڈوڈویل

 

 

دسویں صدی عیسوی کے بغداد میں عربی زبان کے قارئین کو ارسطو تک اتنی ہی رسائی حاصل تھی جتنی آج انگریزی قارئین کو حاصل ہے۔ یہ اس ترجمے کی تحریک کے سبب ممکن ہو سکا تھا جس میں ایک بڑا سرمایہ لگایا گیا تھا اور جو عباسی خلافت کے دوران آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں شروع ہوئی تھی۔ اعلی ترین سطح پر، جس میں خلیفہ اور اس کے خاندان کے لوگ بھی شامل تھے، اس تحریک کی سرپرستی کی گئی۔ اس تحریک نے یونانی فلسفہ اور سائنس کو اسلامی ثقافت میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ عباسی سلطنت کے پاس اس کام کے وسائل تھے، نہ صرف مالی بلکہ ثقافتی بھی۔۔۔ (Aeon

پروفیسر پیٹر ایڈمسن کا ایک مضمون پڑھنے کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔ ان کا یہ مضمون ان عام غلط فہمیوں کو رد کرتا ہے جن کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی تہذیب نے صرف قدیم یونانی فلسفہ کو محفوظ رکھا یہاں تک کہ اسے مغرب میں دوبارہ دریافت کر لیا گیا۔ ایڈمسن میونخ کی لڈوگ میکس ملن یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر ہیں۔

پڑھیں: عربی مترجمین نے یونیانی فلسفے کو محض محفوظ رکھنے سے کہیں زیادہ کام کیا
 

رہنمائی کے سوالات:
۱۔کس چیز نے عباسی خلفاء کو یونان کی سائنسی اور فلسفیانہ کتابوں کو عربی میں ترجمہ کروانے کی ترغیب دلائی؟
۲۔آپ کے خیال میں الکندی اور ان کے ساتھیوں نے کیوں بعینہ ترجمہ کرنے کی بجائے اپنے نظریہ حق کے مطابق ا ن کتابوں میں رد و بدل کیا؟
۳۔کیا مصنف کی طرح آپ کو بھی لگتا ہے کہ ترجمہ نگاری بھی ایک طرح کا فلسفیانہ عمل ہے؟ اگر ہاں تو کیوں، اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

 

 

تصویر: ایتھنزکابازار. ۔ تصویری کریڈٹ: ایڈورڈ ڈوڈویل: یونان ، لندن ، 1821 میں مناظر۔ عوامی ڈومین۔

< پچھلااگلے