زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟ عہد حاضر کے نظریات کس طرح کے معانی اخذ کرتے ہیں؟ اور کیسے مختلف نقطہاے نظرتخلیق کے حوالے سے خدائی طاقت کے کردار کو پیش کرتے ہیں؟ اس حصے میں ہم  جانیں گے کہ نامیاتی زندگی (اورگینک لائف) کی بنیادی اکائی کس طرح وجود میں آئی اور ان  نظریات پر نگاہ ڈالیں گے جنہوں نے سائنسی اجماعات کو  ایک جامد اور ابدی نوع حیات کے تصور سے دور کردیا۔

۱۸۷۱ میں جارلس ڈارون نے اپنی کتاب "دی ڈسنٹ آف مین (انسان کا نزول)” میں ارتقاء کا نظریہ پیش کیا۔ یہ نظریہ حیاتیاتی تبدیلی اور تنوع کی وضاحت کے لئے ایک میکانیکی نظام عمل کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ سائنسی شواہد کے ذریعہ اس نظریہ کا تجزیہ کیا گیا ہے اور حیاتیاتی مطالعات،  جو وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے جانداروں مثلا چوہےیا پھلوں کی مکھیوں میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کا کھوج لگاتے ہیں،اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق جنسی تولید ان خصوصیات کو منتخب کرتی ہے جو اس نوع کے مخصوص ماحول کے لحاظ سے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہیں۔ پھر ان خصوصیات کے آگے کی نسلوں میں منتقل ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ یہ بڑی حد تک ایک امکانی دلیل ہے جو اس امر کی وضاحت کرتی ہے کہ کیوں کچھ خصوصیتیں دوسری خصوصیتوں کے مقابلے میں زیادہ عام ہو جاتی ہیں، اور پھر ایک مجموعی دعوی پیش کرتی ہے کہ تمام  جانداروں  کے آباء و اجداد ایک ہی ہیں جن سے  پھر جنسی انتخاب کے ذریعہ تنوع پیدا ہوا اور دنیا میں نظر آنے والی انواع میں تنوع کا سبب بنا۔

اسلامی الہیات کے مکتبہ ہائے فکر عام طور پر ارسطاطالیسی سائنسی مفروضو ں اور اصولوں کی پیروی کرتے ہیں اور بنی نوع انسان  کی تخلیق  کا ذمہ دار براہ راست خدا کو بناتے ہیں۔ قرآن کریم کی تشریح کرتے ہوئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان کو مٹی سے بنایا گیا اور پھر اس میں جان ڈال دی گئی۔ اس کو تمثیلی طور پر پڑھنے کے بجائے، اسے ایک معجزاتی تخلیق کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دوسرے جانداروں کی تخلیق کو بھی اسی طرح کا ایک ذاتی ربط دیا جاتا ہے، مانو خدا فردا فردا تمام چیزوں کی تخلیق کرتا ہے۔ اس عقیدہ کو نظریہ موقعیت ("اوکیژ نلزم” یعنی یہ ماننا کہ اسباب و علل کے ظاہری تعلق میں مشیت الہی کا عمل دخل ہے)  کی وجہ سے خوب عروج حاصل ہوا۔ ابو حامد الغزالی اس کے زبردست حامی تھے۔ ان کے مطابق ، خدا اس کائنات کو لمحہ بہ لمحہ تخلیق کر رہا ہے،لہذا علیت (کوزالٹی) بھی صرف ایک عادت کا ظہور ہے ، اور یہ کو ئی فطری قانون نہیں ہے۔ یہ خیال حقیقی دنیا کو سمجھنے کی انسان کی عقلی قوت  کے مقابلے میں خدا کی قدرت کاملہ کے رتبہ کو بلند کرتا ہے۔

طبعی دنیا کے بارے میں جامد ارسطوئی نظریہ جسے کلامی مکتبہ ہای فکراختیار کئے ہوئے ہیں، عصر حاضر کے حیاتیاتی نقطہ نظر سے  یقینی طور پر متناقض ہے،  مثلاً یہ اختلاف کہ انسان  کی تخلیق باقی جانداروں سے مختلف ہے۔ تاہم  اسلام اور نظریہ ارتقاء کے مابین موجود بہت سارے اختلاف  کا تعلق نظریہ ارتقاء سے کم اور ڈارون اور نظریہ ارتقاء کے حامیوں کے حوالے سے خارجی مفروضات، یا پھر استعماریت کی تردید اور سماجی ڈارونزم سے زیادہ ہے۔

کلیدی اصطلاحات:

ارتقاء

تخلیقیت (کری ایشنزم)

سماجی ڈارونزم (سوشل ڈارونزم)

طبعی انتخاب (نیچرل سیلیکشن)

* نوٹ: الفریڈ رسل والیس نے بھی اسی دوران آزادانہ طور سے نظریہ ارتقا کے بارے میں تصورپیش کیا تھا، اوراسی موضوع پر ڈارون کے ساتھ مشترکہ طور پر اس تحقیق کو شائع بھی کیا۔

تھمب نیل:  جیلی فش مونیٹری ایکویریم، کیلیفورنیا.۔ فوٹو کریڈٹ: پیٹر سیزکیلی ، 2018. سی سی BY-SA 2.0۔

پڑھنے کے لیے مواد