استدلال کے طریقے میں واقع ہونے والی تبدیلی ہی، جسے میکس ویبر نے بیان کیا ہے، وہ واحد تبدیلی نہیں تھی جس کے ذریعے پہلے یورپ اور پھر پوری دنیا کے جدیدیت کی طرف بڑھنے والے رجحان کی وضاحت کی جا سکے۔ سیاسی تنظیم کی ایک نئی شکل "ریاست” شہری ریاست کے ماڈل سے ابھری اور حکمرانی کا غالب مثالی نمونہ بن گئی۔ مقدس رومن سلطنت کی راکھ میں ، سیاست دانوں نے مشترکہ ثقافتی رسومات اور زبان کی بنیاد پر علاقوں کو متحد کیا۔ لیکن قومی ریاست کی ترقی کے ساتھ ہی اس امر کی وضاحت کی ضرورت بھی پیش آگئی کہ "کون حقیقی یعنی نسلی اعتبار سے اس ریاست سے تعلق رکھتا ہے” او رکون نہیں؟ اس کے علاوہ پیچیدہ و مخلوط شناختوں کو سلجھانے اور لوگوں کے گروہوں کو علاقوں سے منسلک کرنے کی ضرورت بھی پیش آئی۔اگر ۱۸۶۳ سے ۱۸۷۱ تک اتحاد کی کوششوں کے نتیجے میں جرمنی ایک ایسے نئے مخلوط شناختوں کے گروہ جسے جرمن کہا گیا، کا ملک ہو گیا، ، تو ان لوگوں کا کیا ہوا جو اس نئی شناخت میں فٹ نہیں بیٹھے؟
قومی ریاست کے ظہور کے ساتھ ہی، تکثیریت کے سوال نے مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ وہ گروہ جنہوں نے اپنے آپ کو ایک "قوم” کے طور پر متعارف کروایا، اور وہ لوگ جو اپنے علاقوں پر حاکم تھے یا پھر حکومت حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے، انہوں نے ان لوگوں کے متعلق جو اچانک سے اس "قومی” تصور سے باہر کر دئے گئے تھے، مختلف طریق کار استعمال کئے۔دنیا بھر میں دور جدید میں رونما ہونے والے بہت سارے خوفناک واقعات ، مثلا "اقلیتوں” کو دبانا، انہیں ملک چھور کر جانے پہ مجبور کرنا، یا قتل کر دینا، قوم پرستی کا شاخسانہ ہیں۔نسل پرستی اور شدید شناخت پسندی کی لمبی تاریخ سے عیاں ہے کہ جمہوری ریاستوں میں بھی” اقلیتوں "کے مساوی حقوق، اور یہاں تک کہ بعض اوقات ان کی شخصیت کو بھی چیلنج کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کا عالمی منشور ۱۹۴۸، جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی بل کا پہلا معاہدہ تھا، اس منشور کو دوسری عالمی جنگ کے دوران منظم اور ریاستی منظوری کے ساتھ بڑے پیمانے پر خاص طور سے یہودیوں، بشمول ہم جنس پرست، پولش ، رومینی، اور شوروی اقوام کے قتل عام کے بعد تحریک ملی۔ بین الاقوامی معاہدات "بنیادی حقوق کی آزادی” کو خاص طور پر ریاست کے درون خانہ استحصال سے بچانا اور انہیں فروغ دینا چاہتے ہیں۔
اس حصے میں طلبہ، جدید ریاستی نظام، تکثیریت، اور انسانی حقوق پر اسلامی اور غیر اسلامی نقطہاے نظر کی روشنی میں غور کریں گے۔ مسلم قوموں کی سیاسی تنظیم کی ایک طویل تاریخ ہے، جدید قومی ریاست کا نظام مسلمانوں کے تاریخی سیاسی نظام سے کس طرح مختلف ہے؟ اور کیا اسلامی نصوص اور کلامی متون اس بارے میں کوئی ہدایت فراہم کرتے ہیں کہ تکثیریت کو کس طرح نافذ کیا جائے؟ اگر انسانوں کو مساوی حقوق نہ دئے جائیں تو کیا وہ مساوی تکریم کے حامل ہو سکتے ہیں؟ اور آخر میں، کیا انسانی حقوق کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر موجودہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے نظام سے بنیادی طور پر مختلف ہے؟
کلیدی اصطلاحات:
• قوم
• قومی ریاست
• قوم پرستی
• تکثیریت
• انسانی حقوق
• اقلیت
تصویر: میانمارکانسلی لسانی کا نقشہ۔ تصویری کریڈٹ: وکیمیڈیا ، یو ایس سی آئی اے ، 1972۔ عوامی ڈومین۔
پڑھنے کے لیے مواد
4.3.3 جہاں اسلام اور قوم پرستی کا ٹکراؤ ہوتا ہے
کیا اسلام ہمارے قوم پرستی سے آگے بڑھنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ (Clark & Kim Kays/"Bombed building")
مزید پڑھیں4.3.4 آچے میں مہمان شہریت
انڈونیشیا کے صوبے آچے نے 2001 سے شریعت کی تشریح کو نافذ کیا ہے ، یہ شرعی قوانین کے نفاذ کے بعد دوسری مذاہب پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات کی ایک مثال فراہم کرتا ہے۔ (Vidi Agiorno/"Aceh Great Mosque")
مزید پڑھیں4.3.5 بین الاقوامی انسانی حقوق اور اسلام
"انسان ہونے کا کیا مطلب ہے، اور انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے؟ یہ سوالات بہت سی برادریوں اور روایات کی ریڑھ کی ہڈی اور مقصد کی تشکیل کرتے ہیں۔" (UN/"Human Rights Council")
مزید پڑھیں4.3.6 قاہرہ اعلامیہ اور انسانی حقوق
کیا اسلام میں انسانی حقوق کا قاہرہ اعلامیہ غالب بین الاقوامی انسانی حقوق کے نظام سے مطابقت رکھتا ہے؟(Khamenei.ir/"OIC Summit")
مزید پڑھیں4.3.1 جدید ریاست کا تعارف
ایک قائم باختیار علاقے کے اندر طاقت کا جائز استعمال جدید ریاست کا مرکزی جزو ہے۔ ریاستیں ایک حالیہ اختراع ہیں -- اور سیاسی تنظیم کی دوسری شکلیں ممکن ہیں۔. (William Shepherd/"Italian Unification")
مزید پڑھیں