جو ہم جانتے ہیں وہ ہم کیسے جانتے ہیں؟ ہمیں کس بنیاد پر یقین ہے کہ وحی اور حقیقت کے بارے میں ہمارا نظریہ درست ہے؟ ہم اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے سنی اسلام کے ایک بڑے مذہبی مکتب فکر کے بانی، ابو منصور ماتریدی (متوفی 944) کے نقطہ نظر کے مزید مطالعے کو جاری رکھیں گے۔ متاخرین علماء میں متکلمین حضرات، مثلاً سعد الدین تفتازانی (متوفی 1390) اور ابو حامد الغزالی (متوفی1111) نے الہیات ، فلسفہ، اور سائنس کے مابین تعلق پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ہمارے فلسفیانہ اور سائنسی نظریات میں اگر کسی طرح کی بنیادی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو الہیات پر اس تبدیلی کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا اس نئے علم کو بھی بحث کا حصہ بنایا جانا چاہئے؟
کلیدی اصطلاحات:
- علمیات یا نظریہٴ علم
Thumbnail: "Mosque Book” prayer book, Abuja. Photo Credit: Mark Fischer, 2014. CC BY-SA 2.0.
پڑھنے کے لیے مواد
1.2.1 ہم کیسے جانتے ہیں؟
زبان، علم اور حقیقت کے مابین کیا تعلق ہے؟
مزید پڑھیں1.2.2 ماتریدی ، کتاب التوحید
ابومنصور ماتریدی (متوفی 944) نے اپنی کتاب "کتاب التوحید" میں علم کا نظریہ پیش کیا. (Meena Kadri/”Jamalpur Veil”)
مزید پڑھیں1.2.3 غزالی ، المستصفی
معروف مذہبی عالم اور فلسفی ابو حامدالغزالی (متوفی۔1111) نے عقل اور وحی کے درمیاں مصالحت کے بارے میں نقطہ نظر پیش کیا (Carlotta Roma/”Family”)
مزید پڑھیں1.2.4 تفتازانی، ” شرح العقائد”
سعدالدین تفتا زانی (وفات 1390) ، ایک فارسی کے جید عالم ، نے استدلال کیا کہ ، اس کے وقت تک ، علم الہیات عملی طور پر فلسفہ سے ناقابل شناخت ہو چکا تھا۔ (Marc Veraart/”xSyrie2”)
مزید پڑھیں1.2.5 رازی، "نہایۃ العقول”
مسلم اسکالر اور عالم دین فخر الدین الرازی (متوفی 1209) ان بیانات کو جو عقلی ثبوتوں پر انحصار کرتے ہیں ، ان بیانات سے الگ کرتے ہیں جن کی بنیاد وحی ہوتی ہے. (hadoken/”Kul Sharif Mosque”)
مزید پڑھیں