ابراھیم موسی ، مرکزی تحقیق کار
ابراہیم موسی، مرکزی تحقیق کار
کنٹینڈنگ ماڈرنٹیز کے کو-ڈائریکٹر
پروفیسر برائے اسلامک اسٹڈیز، شعبۂ تاریخ و کروک انسٹیٹیوٹ برائے انٹرنیشنل پیس اسٹڈیز
ابراہیم موسی یونیورسٹی آف ناٹرے ڈیم میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں اور بشمول شعبۂ تاریخ ، کیو اسکول آف گلوبل افیئرس کے کروک انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس اسٹڈیز میں بھی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف ناٹرے ڈام سے وابستہ ہونے سے پہلے، ڈاکٹر ابراہیم موسی ڈیوک یونیورسٹی، اسٹان فورڈ یونی ورسٹی اور یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ اہم بین الاقوامی مشاورتی مجالس سے وابستہ ہیں ۔ مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی مختلف سرگرم جماعتوں اور ان کے قائدین سے آپ علمی روابط رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر موسی نے اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں واقع ، ہندستان کی مشہور علمی و مذہبی دانشگاہ، دارالعلوم ندوة العلما٫ سے ۱۹۸۱ میں عالمیت کی سند حاصل کی۔ عصری علوم میں آپ نے بی اےکی ڈگری کانپور یونیورسٹی، کانپور، اترپردیش، اور جرنلزم میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما سٹی یونیورسٹی، لندن، یوکے سے حاصل کیا۔ یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن سے آپ نے ۱۹۸۹ میں ایم اے اور ۱۹۹۵ میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔
ڈاکٹر موسی کی تحقیق کا موضوع اسلامی فکر ہے، جس میں عہد جدید اور ماقبل جدید کے فقہی اور کلامی نظریات کے علاوہ معاصر مسلم اخلاقی و سیاسی افکار شامل ہیں۔ آپ ایک مشہور پبلک انٹلیکچول (عوامی دانشور) ہیں ۔ جورج ٹاؤن یونیورسٹی میں واقع پرنس طلال بن ولید سینٹر برائے مسلم مسیحی مفاہمت اور اردن میں واقع رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر نے ۲۰۰۹ میں مشترکہ طور پر ۵۰۰ سب سے زیادہ موثر مسلمانوں کی ایک فہرست جاری کی تھی، جس میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔ ۲۰۰۷ میں مراکش کے بادشاہ محمد ششم کی دعوت پر مراکش کی ایک ممتاز سالانہ علمی تقریب ، دروس حسنیہ، میں آپ نے عربی میں خطاب فرمایا ، جسے ملک کے عوام کے لئے بھی نشر کیا گیا ۔ ۲۰۱۲ میں آپ نے ڈیوک یونیورسٹی میں لینگ فولڈ لیکچر نامی تقریب میں اور ۲۰۱۴ میں ولڈ لیکچر سیریز میں مذہب اور تنازع کے عنوان سے یونین کالج میں اپنے محاضرات پیش کیے۔
ڈاکٹر موسی کی تعلیم عصری اور روایتی ، دونوں طرح کے اداروں میں ہوئی ہے۔ ہندستان کے مدارس میں آپ نے روایتی اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی ، جبکہ یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن میں آپ نے جدید طرز فکر کے تحت مطالعہ مذہب کے موضوع پر اعلی ڈگریاں حاصل کیں۔ مختلف ذہن و فکر کے حامل عوام تک آپ اپنی بات کو بآسانی پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک محقق اور عوامی دانشور کی حیثیت سے ڈاکٹر موسی نےجن مجالس سے خطاب کیا ہے ان میں عالمی سطح کے نمایاں سیاسی و فکری لیڈران مثلا سابق صدر بل کلنٹن، سابق سکریٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن ، سابق وزیر اعظم ملیشیا جناب عبد اللہ بداوی، ملیشیا میں حزب مخالف کے لیڈر انور ابراہیم، اور ترکی کے ریاستی طح کے وزرا٫ ، شامل ہیں۔ ڈاکٹر موسی نے ساؤتھ افریقہ کے سابق صدر جناب نیلسن منڈیلا اور ان کی حکومت کے ممبران کابینہ کے مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ آپ نے کونسل آن فارن ریلیشنس، سن ویلی رائٹرس کی کانفرنس کی مجالس سے بھی خطاب کیا ہے اور اسلامی ممالک میں طرز حکمرانی کے حوالے سے یو این کے افسران کے ہمراہ خدمات انجام دیں۔ مزید برآں ، ڈاکٹر موسی مختلف قسم کے اہم بین الاقوامی اقدامات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ آپ کے مضامین اور اداریے نمایاں اخبارات و مجلات ، مثلا دی بوسٹن رویو، اٹلانٹا جرنل -کانسٹیٹیوشن، واشنگٹن پوسٹ، دی نیو یورک ٹائمز وغیرہ میں اسلام، مذہب اور عالمی امور جیسے اہم موضوعات پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر موسی کے متعدد مضامین معاصر اسلامی فکر کی تاریخ، اسلامی فکر میں اصلاحات، اور روایت کی تشکیل جدید کے موضوع پرشائع ہو چکے ہیں۔ جن موضوعات کو آپ نے اپنی تحقیق و جستجو کا محور بنایا ہے وہ اپنی نوعیت میں مختلف اور اچھوتے ہیں۔ ان میں روایتی اسلامی تعلیم، انسانی حقوق، صنف، سیاست، قومیت، اور حیاتیاتی اخلاقیات شامل ہیں۔ آپ کی کتاب What is a Madrasa? ، جو ۲۰۱۵ میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائینا سے شائع ہوئی، جوجنوبی ایشیا میں مدارس کی روایت اور نظام تعلیم پر اہم مطالعہ پیش کرتی ہے۔ ڈاکٹر موسی نے بارہویں صدی کے مسلمان دانشور، ابو حامد الغزالی متوفی ۱۱۱۱ ء، کے خصوصی تناظر میں عہد وسطی کی اسلامی فکر پر متعدد مضامین شائع کئے ۔ آپ کی کتاب کو Ghazali and the Peotics of Imagination جو یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا سے ۲۰۰۵ میں شائع ہوئی، امیرکن اکیڈمی آف ریلیجن کی جانب سے مذاہب کی تاریخ میں پہلی سب سے اہم کتاب کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ آپ The African Renaissance and the Agro-Arab Springeکے مشترکہ ایڈیٹر بھی ہیں۔ یہ کتاب جورج ٹاؤن یونیورسٹی پریس سے ۲۰۱۵ میں شائع ہوئی۔آپ کی مزید کتابیں Islam in the Modern World راؤٹلیج سے ۲۰۱۴ میں اور Muslim Family Law in Sub-Saharan Africa: Colonial Legacies and Post-Colonial Challengesایمسٹرڈم یونیورسٹی پریس سے ۲۰۱۰ میں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ نے مشہور مسلمان دانشور پروفیسر فضل الرحمن کی آخری کتاب جو مخطوطے کی شکل میں تھی، کو بھی ایڈٹ کیا ہے ۔ یہ کتاب اوکسفرڈ اور ون ورلڈ پبلیکیشنز کے اشتراک سے ۲۰۰۰ عیسوی میں Revival and Reform in Islam: A Study of Islamic Fundamentalism کے نام سے شائع ہوئی۔
یونیورسٹی آف نوٹرے ڈام میں کالج آف آرٹس اینڈ لیٹرس کے اشتراک اور کیو اسکول آف گلوبل افیئرس کے تحت آپ کو اسلامی فکر اور مسلم معاشرے (اسلامک تھاٹ اور مسلم سوسائٹیز) کے عنوان سے ایک جدید اور تخلیقی پروگرام کو مرتب کرنے کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے۔ اسلامک تھاٹ اور مسلم سوسائٹی کا مقصدایک ایسے ادارے کی حیثیت حاصل کرنا ہے جس میں اسلام کے تاریخی اور معاصر پہلوؤں پر اخلاقیات، قانون، سیاست، اور معاشرت کے خاص تناظر میں تحقیق کی جائے۔ ڈاکٹر موسی کنٹینڈنگ ماڈرنٹیز کے بھی شریک ڈائریکٹر ہیں۔ کنٹینڈنگ ماڈرنٹیز ایک کثیر الشعبہ پروجیکٹ ہے جس کا مقصد جدید دنیا میں مذہبی اور سیکولر قوتوں کے درمیان تا ل میل کو وسیع پیمانے پر سمجھنے کے لئے تحقیق و مطالعہ کرنا ہے۔ اسی پروجیکٹ کے تحت ڈاکٹر موسی مدارس کے طلبہ کو ایسے علمی اور فکری وسائل کی تعلیم دینے کے خواہش مند ہیں جن کے ذریعہ وہ دور جدید کے فکری چیلنجوں کو سمجھ کر ان سے تعامل کر سکیں۔ جان ٹیمپلٹن فاؤن ڈیشن کے تعاون سے انہوں نے اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنایا۔ڈاکٹر موسی نے مدرسہ سے فراغت کے بعد معاصر علمی دنیا تک کے راستے میں واقع فکری چیلنجوں کا سامنا کیا ہے، اور خود ان ہی کے الفاظ ہیں کہ وہ "اپنےپروفیشنل کریئر کے ابتدائی دور میں ایسے کسی بھی پروجیکٹ کو نہیں کر سکتے تھے۔” لہذاا ٓپ کی کوشش ہے کہ علماء کی آئندہ نسل کو ان چیلنجز کا سامنا کرنے میں ایسی دشواریاں نہ ہوں۔
وارث مظہری، لیڈ فیکلٹی نئی دہلی
وارث مظہری
لیڈ فیکلٹی، کنٹینڈنگ ماڈرنٹیز
لیکچرر، جامعہ ملیہ اسلامیہ
فی الحال ڈاکٹر وارث مظہری جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں گیسٹ لیکچرر ہیں۔ پچھلے پندرہ سالوں سے آپ ’ترجمان دارالعلوم ‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے منسلک رہے ہیں۔ یہ ماہانہ مجلہ دارالعلوم دیوبند کی ابنائے قدیم آرگینائزیشن کی جانب سے شائع ہوتا ہے۔ڈاکٹر مظہری نے اگست ۲۰۱۱ سے جولائی ۲۰۱۳ تک ڈیوک یونیورسٹی، امریکہ، کے زیر اقدام ورچوئل ڈائلاگز کے لئے ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ماہانہ میگزین ’کمیونلزم کومبیٹ‘ نے امن، عدم تشدد، اور مکالمہ بین المذاہب کے موضوعات پر ان کی تحریروں پر ایک مئی ۲۰۱۰ میں ایک خصوصی شمارہ بعنوان Rediscovering the Tolerant Tradition in Islam شائع کیا۔ مظہری ایک نامور مصنف ہیں اور اب تک متعدد مضامین اور کتابیں شائع کر چکے ہیں۔ ان میں ’ہندستانی مدارس کا تعلیمی نظام اور اس میں اصلاح کی ضرورت : ایک جائزہ‘ شامل ہے۔ یہ کتاب ۲۰۱۴ میں شائع ہوئی اور مدرسے کے تعلیمی نظام میں اصلاح پر زور دیتی ہے۔ آپ کی تحقیقی دلچسپی کے موضوعات میں بین المذاہب مکالمہ، امن اور معاشرتی ہم آہنگی، اسلام میں مذہبی فکر کی تعمیر نو، اور ہندوستانی مدرسوں میں اصلاحات ، وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کے بہت سے مضامین متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو کر بھی شائع ہوئے ہیں۔
ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہونے والے ، ڈاکٹر مظہری ترقی اور ٹیکنالوجی کے شہری مراکز سے دور دیہی ہندوستان میں پلے بڑھے۔ بچپن میں ہی انھوں نے اپنے والدین کو کھودیا تھا ، اپنے ابتدائی سالوں میں تھوڑی سی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔ آخر کار انھوں نے بنیادی دینی تعلیم ایک مقامی مدرسے سے حاصل کی جہاں آپ نے پورا قرآن حفظ کیا ۔ پھر متعدد مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان کی مشہور اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا ۔دارالعلوم دیوبند سے آپ نے ۱۹۹۵ میں فراغت حاصل کی اور اس کے بعد آپ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی، سے ۲۰۰۵ میں گریجویشن اور ۲۰۰۸ میں ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اسی یونیورسٹی سے آپ نے ۲۰۱۳ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
ڈاکٹر وارث مظہری کی مدرسہ اصلاحات سے متعلق امور سے فکری و علمی وابستگی انہیں ہندوستان میں "مدرسہ ڈسکورسز پروگرام کے ذریعہ مدارس کے طلبہ میں سائنسی اور کلامی خواندگی کو آگے بڑھانے ” کے منصوبے کے لئے اہل اور پر عزم بناتا ہے۔ ڈاکٹر مظہری کے نزدیک ، جدید دنیا میں روایتی اسکالرشپ کو زندہ اور عصری ضروریات کے مطابق رکھنے کے لئے مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ عصری علمی مباحث کو مدارس میں روشناس کروانا اور اس کی تعلیم کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ انہوں نے ہندوستان میں مدرسہ کے تعلیمی نظام پر تین کتابیں لکھی ہیں اور ، خود ایک مشہور مدرسے کے فارغ التحصیل ہونے کے سبب،انھیں یقین ہے کہ دور جدید میں مدارس کے نوجوان فارغین کی علمی مشغولیت کو تقویت بخشنے اور اس کی نشاندہی کرنے کے لئے مدارس کے نصاب میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ مسلم تہذیب کی تاریخ میں مدرسوں نے جو اہم کردار ادا کیا ہے ڈاکٹر مظہری اس کی اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے اس میراث کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔
ععمار خان ناصر, لیڈ فیکلٹی گوجرانوالہ
عمار خان ناصر
لیڈ فیکلٹی ، کنٹینڈنگ ماڈرنٹیز
پروفیسر، گفٹ یونیورسٹی
محمد عمار خان اس وقت پاکستان کےشہر گوجرانوالہ میں واقع گفٹ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامی علوم کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ ۲۰۰۰ سے ماہنامہ الشریعہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اس سے پہلے ۱۹۸۹ سے ۲۰۰۰ تک آپ اس مجلہ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ گفٹ یونیورسٹی سے منسلک ہونے سے قبل ، آپ نے ۱۹۶۶ سے ۲۰۰۶ تک نصرۃ العلوم میں درس نظامی میں درس نظامی میں شامل مختلف موضوعات کی تدریس کی خدمات انجام دیں ۔
ڈاکٹرمحمد عمار خان پاکستان کے شہر گکھڑ ،گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے ، اور اپنے والد ، مولانا زاہد الراشدی ، جو ایک معقول اور متوازن مذہبی نقطہ نظر کے لئے جانے جاتے ہیں ، اور ان کے دادا ، مولانا محمد سرفراز خان صفدر ، جو ملک میں دیوبندی اسکول کی علمی آواز سمجھے جاتے تھے، کے علمی نقش قدم پر چلتے ہوئے پرورش پائی ۔ مدرسہ انوار العلوم، گوجرانوالہ میں اپنی دینی تعلیم کا آغاز کرنے کے بعد ، انہوں نے 1994 میں مدرسہ نصرت العلوم ،گوجرانوالہ سے شہادۃ العالمیہ حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے ۲۰۰۱ میں پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرکی ڈگری بھی حاصل کی۔
محمد عمار خان کی تحریریں زیادہ تر اردو میں شائع ہوئی ہیں۔ آ پ کی پہلی تصنیف ’ امام ابو حنیفہ و عمل بالحدیث ۱۹۹۶ میں شائع ہوئی۔ ۲۰۰۷ میں انہوں نے اسلامی سزاؤں کے بارے میں ، اسلامی نظریاتی کونسل ، حکومت پاکستان کی سفارشات کا علمی جائزہ لیا۔ . اس مسئلے پر ان کی تحقیق کو بعد میں المورد ، لاہور، نے’حدود و تعزیرات: چند اہم مباحث‘ کے عنوان سے مرتب اور شائع کیا۔ ان کے دیگر تحقیقی کارناموں میں ’مسجد اقصی کی تاریخ اور حق تولیت ‘اور ’جہاد : ایک مطالعہ‘شامل ہیں۔ مسجد اقصیٰ پر ان کا کام خاص طور پر مذہب اور تنازعات کی تبدیلی کے موضوع سے متعلق ہے اور یہ تصنیف موجودہ دور کے سب سے تکلیف دہ مذہبی تنازعہ کے قابل عمل حل کو تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مختلف مذہبی امور کے بارے میں ان کے تحقیقی مضامین ماہنامہ اشراق ، لاہور، ماہنامہ الشریعہ ، گوجرانوالہ؛ اور ماہنامہ نصرۃ العلوم ، گوجرانوالہ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
شیرعلی ترین ، امریکہ میں قائم فیکلٹی
شیر علی ترین، امریکہ میں مقیم استاد
ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے مطالعات مذاہب، فرینکلن اینڈ مارشل کالج
شیرعلی ترین فرینکلن اور مارشل کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے مطالعات مذاہب ہیں ، اور ’ڈفینڈنگ محمد ان ماڈرنٹی (یونیورسٹی آف نوٹری ڈیم پریس ، ۲۰۱۹) کے مصنف ہیں۔ ان کی تحقیقی دلچسپی کے موضوعات میں جدید جنوبی ایشیاء کی مسلم دانشورانہ فکر ہے جس میں ان کی خصوصی توجہ کے موضوعات قانون ، اخلاقیات ، اور الہیات کے اہم سوالات پر بین المسلم مباحث اور مناظرے ہیں۔ ترین سیکولرزم اور مسلمانوں کی علمی و سیاسی فکر اور مسلم انقلابی سیاست جیسے موضوعات سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے متعدد مضامین جرنل آف لاء اینڈ ریلیجن ، مسلم ورلڈ ، پولیٹیکل تھیو لوجی ، اسلامک اسٹڈیز ، رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے جرنل ، ری اورینٹ، وغیرہ میں شائع ہوئے ہیں ۔ڈاکٹر ترین کے شائع شدہ مضامین درج ذیل لنک کے ذریعہ حاصل کئے جا سکتے ہیں :
http://fandm.academia.edu/sheralitareen
جوش لوپو، کلاس روم کوآرڈینیٹر
جوش لوپو، کلاس روم کوآرڈینیٹر
کنٹینڈنگ ماڈرنٹیز کےکالم نگار اور ایڈیٹر؛ کلاس کوآرڈینیٹر ، مدرسہ ڈسکورسز
جوش کنٹینڈنگ ماڈرنٹیز بلاگ کے ایڈیٹر اور کالم نگا ر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مدرسہ ڈسکورسز پروگرام کے کلاس روم کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ بلاگ کے ایڈیٹر اور مصنف کی حیثیت سے ، وہ اشاعت کے لیے مضامین تیار کرتے ہیں ، اسکالرز کو کنٹینڈنگ ماڈرنٹیز کی ویب سائٹ پر مضامین لکھنے کی دعوت دیتے ہیں ، اور خود بھی بلاگ پوسٹیں لکھتے ہیں۔ مدرسہ ڈسورسز کے کلاس روم کوآرڈینیٹر کے طور پر وہ نصاب تیار کرتے ہیں اور آن لائن کلاسز کا انتظام بھی انہیں کے ذمہ ہے۔
جوش نے ۲۰۱۸ کے موسم بہار میں فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ مذہب سے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے تحقیقی رجحانات میں مذہب کے مطالعہ میں نظریہ اور طریقہ کار ، توحید پر مبنی مذاہب کی فلسفیانہ روایات اور سیاسی نظریات کا مطالعہ شامل ہیں۔ ان کے تحقیقی مقالے ، ’آفٹر ایسنشلزم‘، نے یہ تجزیہ پیش کیا ہے کہ کس طرح بیسویں صدی کے نصف اول میں مذہب کے ماہرین نفسیات نے کلاسیکی فلسفیانہ مظہر کو مختص کیا اور غلط فہمی پیدا کی ، اور یہ استدلال کیا کہ ہیڈگر کا وجودی رجحان مذہب کے عصری مطالعے میں علمی تنقید کا ایک بہترین نمونہ تھا۔ انہوں نے مختلف علمی مجلات جیسے ساونڈنگز ، ریڈنگ رلیجن، اور رلیجیس اسٹڈیز ریویو، وغیرہ میں اپنےتحقیقی مقالات شائع کئے ۔